امریکی صدر کا سعودی عرب کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا عزم
نیویارک،18جون؍(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا )امریکا کے دورے پر آئے والے سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے وائیٹ ہاؤس میں امریکی صدر براک اوباما سے تفصیلی ملاقات کی۔ ملاقات میں مشرق وسطیٰ کو درپیش چیلنجز اور دیگر علاقائی اور عالمی مسائل پر بات چیت کی گئی۔ شہزادہ محمد سلمان اور امریکی صدر کے درمیان ہونے والی ملاقات کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی۔ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے تاریخی تعلقات اور دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم اور مضبوط بنانے سمیت باہمی دلچسپی کے امور پرتبادلہ خیال کیا گیا۔اس موقع پر صدر براک اوباما کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور امریکا کیدرمیان اسٹریٹیجک تعلقات، دوطرفہ دوستی اور تعمیر وترقی کے شعبوں میں دو طرفہ شراکت دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے سعودی کے عرب کے ساتھ ہر سطح پر تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور استحکام اور خطے کو درپیش چیلنجز سے نمٹںے کے لیے سعودی عرب کی بھرپور مدد جاری رکھی جائے گی۔ملاقات میں سعودی عرب کے اقتصادی و ترقی کے ویژن 2030ء پر بھی بات چیت کی گئی۔ براک اوباما نے شہزادہ محمد بن سلمان کو سعودی عرب کے لیے بہترین اقتصادی ویژن دینے پرمبارک باد پیش کی اوران کی معاشی اصلاحات کو سراہا۔قبل ازیں سعودی ولی عہد نے امریکی وزیر دفاع آشٹن کارٹر سے پینٹاگون میں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں بھی دونوں رہ نماؤں نے خطے کو درپیش خطرات، دہشت گردی، بیرونی مداخلت اور دیگر مسائل پر بات چیت کی گئی تھی۔ امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ریاض کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات مزید مستحکم بنائے گا اور اتحادی ملک کو درپیش بیرونی خطرات کی روک تھام میں کے لیے ریاض کی مدد کی جائے گی۔اس موقع پر شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا کہ میں ایک ایسے وقت نازک اور حساس موقع پر اپنے حلیف ملک کے دورے پر آیا ہوں جو پورا خطہ بدترین خطرات کا سامنا کررہا ہے۔ بعض ممالک اندرونی شورش کا شکار ہیں اور بعض کو دہشت گردی اور بیرونی مداخلت کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ہے اور ہم سب مل کر ایک دوسرے کے مسائل کیحل میں مدد دے سکتے ہیں۔قبل ازیں بدھ کو سعودی نائب ولی عہد نے امریکی چیئرمین سینٹ پول رائن اور متعدد دوسرے عہدیداروں اور کانگریس میں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس کے ارکان سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں شام، یمن، لیبیا اور ایران کے مسائل بھی زیربحث آئے تھے۔